بیر نہ صرف اپنے شیریں اور کھٹ میٹھے ذائقے کی وجہ سے ہی ہردلعزیز ہے بلکہ اپنی غذائیت کے لحاظ سے بھی ایک عمدہ پھل ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے ایک اچھا اور شیریں بیر اپنی تاثیر اور لطافت میں کسی طرح بھی ’’سیب‘‘ سے کم نہیں ہوتا۔
مظفر علی‘پشاور
بہار کا موسم شروع ہوتے ہی بازار میں لال سنہرے بیر آنا شروع ہوجاتے ہیں‘ ان کھٹے میٹھے بیروں کو دیکھ کر ہر شخص کے منہ میں پانی بھر آتا ہے جس نے کبھی اس کا ذائقہ چکھا ہو‘ بچوں کا تو یہ ہر دل عزیز پھل ہے وہ اسی کو حاصل کرنے کیلئے اپنی جان تک کوخطرے میں ڈال کر درخت کی ایک شاخ سے دوسری شاخ تک چلے جاتے ہیں۔
بیر عوام میں بھی بے حد ہر دل عزیز ہے‘ اس کا پتہ اردو کے اس محاورے سےعیاں ہوتا ہے کہ جہاں بیری ہوگی وہاں ڈھیلے آئیں گے‘ اس محاورے کا مطلب کچھ ہی کیوں نہ ہو مگر اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لوگ اس کو حاصل کرنے کیلئے غیرمہذب حرکتیں کیوں کرنے لگ جاتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ میٹھے بھی ہوتےہیں اور کھٹ میٹھے بھی۔
بیر نہ صرف اپنے شیریں اور کھٹ میٹھے ذائقے کی وجہ سے ہی ہردلعزیز ہے بلکہ اپنی غذائیت کے لحاظ سے بھی ایک عمدہ پھل ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے ایک اچھا اور شیریں بیر اپنی تاثیر اور لطافت میں کسی طرح بھی ’’سیب‘‘ سے کم نہیں ہوتا۔ شاید اس لیے بیر کو ‘‘ہندوستانی سیب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اختلاج قلب کے مرض میں بیر سیب جیسی تاثیر کا حامل ثابت ہوتا ہے۔
یہ پھل عوام اور غریبوں کا من بھاتا ہے‘ اسی لیے عوام اس کو کثیرتعداد میں کھاتے ہیں‘ زیادہ کھائے جانے کے اور بھی وجوہ ہیں مثلاً بیر جب بازار میں آتا ہے اس وقت بازار میں دوسرے پھل کمیاب ہوتے ہیں‘ سونے پر سہاگہ یہ کہ اس پھل کی قیمت بھی عموماً کم ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ غرباء کیلئے کسی نعمت سے کم ثابت نہیں ہوتا۔ دیہاتوں میں تقریباً ہر جگہ بیر کا درخت پایا جاتا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیری کا درخت زیادہ اونچا نہیں ہوتا اور اس کا تنا بھی چھوٹا ہوتا ہے مگر یہ نیچے کافی پھیلتا ہے اور اس کا گھنا اور ٹھنڈا سایہ بڑا پُرسکون اور فرحت بخش معلوم ہوتا ہے اب بھی گاؤں میں جس حویلی میں بیر کا درخت نہیں ہوتا۔ لوگ اس کو بارونق تصور نہیں کرتے۔ اسی لیے پاکستان کا محکمہ جنگلات ہر سال درخت کی مہم میں بیر کے ہزاروں درخت عوام میں تقسیم کرتا ہے اور خود بھی سڑکوں کے کنارے پر ان کو اگاتا ہے تاکہ خشک اور بنجر زمین کو خوبصورت اور سایہ دار درختوں سے بارونق بنایا جاسکے اور اس کے علاوہ عوام اس کے پھل سے خاطرخواہ فائدہ اٹھاسکیں۔بیر کی تین اقسام ہیں یہ تخمی‘ پیوندی اور جھڑ بیری۔ پہلی دو قسمیں باغی کہلاتی ہیں اور تیسری قسم کو ضال کہتے ہیں۔ تخمی کے پھل گول‘ گودا کم اور رنگ سرخ ہوتا ہے‘ تخمی اپنے ذائقے کے لحاظ سے کھٹ میٹھا ہوتا ہے اس کے برخلاف پیوندی کے پھل ایک ڈیڑھ انچ لمبے‘ بیضوی شکل کے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات نوکیلے بھی ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ سرخ یا زرد‘ چھلکا پتلا اور گودا سفید اور موٹا ہوتا ہے۔ یہ ذائقے میں شیریں ہوتےہیں لہٰذا شہروں میں زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔بیر کے لیے صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ سیب کا ہم پلہ ہوتا ہے‘اس کے علاوہ بیر مانع تشنگی اور آنتوں کے کیڑوں کو مارنے میں مفید ہوتا ہے۔ کچا بیر بھی فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ وہ قابض ہوتا ہے‘ اسی لیے اسہال صفراوی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آنتوں کے زخموں کیلئے بے حد مفید ہے۔ بیر کی پتیوں سے سر دھویا جاسکتا ہے جس سے صفائی کے علاوہ بال بڑے اور گھنےہوجاتے ہیں۔ اس کی پتیوں سے سر دھونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے گرتے ہوئے بال جم جاتے ہیں۔ پسی ہوئی پتیوں کا نیم گرم لیپ کیڑوں کے کاٹے میں مفید ہے اور زخموں پر باندھنے سے پیپ خارج ہوجاتی ہے۔ یہ دافع سمیت اور محلل ورم بھی ہے۔ اس کی شاخ کا نچوڑا ہوا پانی جریان خون کو روکتا ہے اس کے خشک کیے ہوئے پتوں کا سفوف ابٹن کی طرح چہرے پر ملنے سے چہرے کارنگ صاف ہوجاتا ہے۔ اس کا گوند خشک کھانسی میں پھیپھڑوں کیلئے مفید ہے اور بلغم کو رقیق کرتا ہے۔ بیری کے درخت کی پتیوں کاایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ پتے مویشیوں کیلئے چارہ فراہم کرتے ہیں۔ بیری کے پتوں کے ابالے ہوئے پانی سے مردے کے جسم کو غسل دیا جاتا ہے جس کا سائنسی فائدہ یہ ہے کہ مردےکا سخت جسم نرم پڑجاتا ہے‘ دوم مردے کا جسم کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہتا ہے جس طرح کافور سے رہتا ہے‘ سےبیر کے چند چیدہ چیدہ مزید فوائد: بیر دیر ہضم ہوتا ہے۔ صفرا اور خون کے جوش کو تسکین دیتا ہے۔ پیاس بجھاتا ہے۔ گرم مزاجوں کیلئے نہایت موافق ہے۔ اس کو بھون کر دست اور پیچش کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا پانی جگر کا سدہ کھولتا ہے۔ پچیش اور مروڑ کے فوری علاج کیلئے جنگلی بیر کی جڑ ایک تولہ‘ کالی مرچ سات عدد‘ پانی میں گھوٹ کر دن میں تین بار پلانا مفید ہوتا ہے۔ بیر خون صاف کرتا ہے۔ اگر کسی کا دل گھبراہٹ سے ڈوب رہا ہو تو چار دانے بیر کھلانے سے فوری ٹھیک ہوجائے گا۔ بیر کی لاکھ موٹاپا کم کرنے کی بہترین دوا ہے۔ اس کا نسخہ درج ذیل ہے: بیر کی لاکھ ڈیڑھ ماشہ‘ بارہ روز تک روزانہ دن میں کسی بھی وقت ہمراہ پانچ پانچ تولے عرق کلو اور عرق بادیان (سونف) استعمال کریں‘ صبح ناشتے کے ایک گھنٹہ بعد اس کا استعمال انتہائی مفید ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں